Untitled

بےرخی بےاعتنائي ہو چکی
آﺆ من جاﺆ لڑائي ہو چکی
اب مرا دل بهی مکدر ہو گیا
اب مری ان کی صفائي ہو چکی
جن کو پاس خاطر صیاد ہے
ان اسیروں کی رہائي ہو چکی
اب تو مل جاﺆ کہ سارے شہر میں
شہرت نا آشنائي ہو چکی
زلف کہتی ہے دل بےتاب سے
میرے پهندوں سے رہائي ہو چکی
ضعف کے ہاتهوں قدم اٹهتے نہیں
ان کی محفل تک رسائي ہو چکی
تم میں خو بنده نوازی کی نہیں
اے بتو تم سے خدائي ہو چکی
او وفا دشمن جفاجو تندخو
ہو چکی بس بےوفائي ہو چکی
اب تو بےخود سے بهی پرده ہے انهیں
بےحجابی خودنمائي ہو چکی

Rate this poem: 

Reviews

No reviews yet.