Untitled

ابرو کا تصور تها شمشیر نظر آئي
گیسو کا خیال آیا زنجیر نظر آئي

یاں فصل بہاراں کو تقریب خزاں دیکها
تمہید خرابی کی تعمیر نظر آئي

ہم اپنے ہی ہاتهوں سے جاں اپنی گنوا بیٹهے
جب موت کے آنے میں تاخیر نظر آئي

سنگ در جاناں پر کی ناصیہ فرسائي
اتنی کہ مقدر کی تحریر نظر آئي

میں محو تجلی ہوں مجه کو تو زمانے میں
ہر شکل میں تیری ہی تنویر نظر آئي

کچه اور نہ بڑه جاﮰ میعاد اسیری کی
کیوں مجه کو رہائي کی تدبیر نظر آئي

Rate this poem: 

Reviews

No reviews yet.