Untitled

عشق نے دِل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی

عشق نے دِل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی
!! درد دنیا میں جب آیا تو دوا بھی آئی

دل کی ہستی سے کیا عشق نے آگاہ مجھے
! دل جب آیا تو دھڑکنے کی صدا بھی آئی

صدقے اُتاریں گے ، اسیرانِ قفس چھوٹے ہیں
!! بجلیاں لے کے نشیمن پہ گھٹا بھی آئی

آپ سوچا ہی کئے ، اُس سے ملوں یا نہ ملوں
!! موت مشتاق کو مٹّی میں مِلا بھی آئی

لو ! مسیحا نے بھی ، اللّھ نے بھی یاد کِیا
! آج بیمار کو ہچکی بھی ، قضا بھی آئی

دیکھ یہ جادہَ ہستی ہے ، سنبھل کر ' فانی'
پیچھے پیچھے وہ دبے پاؤں قضا بھی آئی

Rate this poem: 

Reviews

No reviews yet.