Skip to main content
Author

لب پر ہے فریاد کہ ساقی یہ کیسا میخانہ ہے
رنگِ خونِ دل نہیں چمکا، گردش میں پیمانہ ہے

مٹ بھی چکیں امیدیں مگر باقی ہے فریب امیدوں کا
اس کو یہاں سے کون نکالے، یہ تو صاحبِ خانہ ہے

ایسی باتیں اور سے جا کر کہئے تو کچھ بات بھی ہے
اس سے کہے کیا حاصل جس کو سچ بھی تمہارا بہانہ ہے

طور اطوار انوکھے اس کے، کس بستی سے آیا ہے
پاؤں میں لغزش کوئی نہیں ہے، یہ کیسا مستانہ ہے

میخانے کی جھلمل کرتی شمعیں دل میں کہتی ہیں
ہم وہ رند ہیں جن کو اپنی حقیقت بھی افسانہ ہے

Rate this poem
Average: 1 (1 vote)